سوال :
ایک خاتون کے نکاح کے وقت ان کا مہر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے طے ہوا تھا ۔ شوہر نے تیس ہزار روپیہ موقع پر ہی ادا کردیا تھا ، باقی بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اب بیوی کی وفات ہو گئی ہے ۔ کیا شوہر کو مہر کی باقی رقم ادا کرنی ہے؟ اگر ہاں تو یہ رقم کس کو دی جائے گی؟
جواب :
مہر عورت کا حق ہے ، اس کے ذریعے اس کی عزّت افزائی کا اظہار بھی ہوتا ہے ، اسی وجہ سے نکاح کی صورت میں مہر کی ادائی کا حکم دیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحۡلَةً (النساء :4)
"اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) اداکرو۔”
مہر کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ وہ جب تک ادا نہ ہو ، اس وقت تک شوہر کے ذمّے وہ رقم قرض رہتی ہے ۔ جس طرح قرض کے بارے میں حکم ہے کہ اسے جلد واپس کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور قادر ہونے کے باوجود اسے واپس کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ، اسی طرح مہر ادا کرنے میں بغیر کسی سبب کے تاخیر کرنا درست نہیں ہے ۔ البتہ اگر عورت کسی رواج یا سماجی دباؤ کے بغیر اپنی آزاد مرضی سے مہر کی کل رقم یا اس کا کچھ حصہ لینے سے منع کردے اور معاف کردے تو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے ، مذکورہ بالا آیت کا اگلا حصہ یہ ہے :
فَاِنۡ طِبۡنَ لَـكُمۡ عَنۡ شَىۡءٍ مِّنۡهُ نَفۡسًا فَكُلُوۡهُ هَنِیۡٓـئًـا مَّرِیۡٓـــئًا ( النساء : 4)
"البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصّہ تمہیں معاف کردیں تو اُسے تم مزے سے کھاسکتے ہو۔”
مہر کی جتنی رقم شوہر پر باقی تھی اس پر عورت کی ملکیت سمجھی جائے گی اور عورت کے مرنے کی صورت میں وہ اس کے تمام ورثہ میں تقسیم ہو گی ۔ اس میں شوہر کا بھی حصہ لگے گا ۔ اگر عورت صاحبِ اولاد ہو تو شوہر کا حصہ چوتھائی (25%) ہوگا اور اگر وہ لاولد ہو تو شوہر کو بیوی کے مالِ وراثت میں سے نصف ملے گا ۔